اپنی نیکیوں کی خبر لیں‘ کتنی نیکیاں چوری ہوگئیں کتنی نیکیاں گل گئیں‘ کتنی نیکیاں جل گئیں‘ کتنی نیکیاں سڑگئیں‘ کتنی نیکیوں کو گھن کھا گیا‘ کتنی نیکیوں کو کیڑا کھاگیا‘ کتنی نیکیاں پھٹ گئیں کتنی نیکیاں قید ہیں۔
گفتگو میں پچھتاوے ہی کیوں ہوتے ہیں؟
قارئین! میں اکثر سوچتی ہوں ہم اپنا مال‘ کپڑے قیمتی چیزیں چھپا چھپا کر اور جوڑ جوڑ کر رکھتے ہیں مگر جب کسی میت کو دیکھتی ہوں کہ وہ تو بالکل خالی ہاتھ چلی جاتی ہےاور پیچھے والے عیش اڑاتے ہیں۔ جانے کون خالی ہاتھ گیا‘ کون بھرے ہاتھ گیا یہ تو ہر ایک کی اپنی قسمت ہے۔ جب ہم کبھی اکٹھے بیٹھتے ہیں تو گفتگو میں پچھتاوے ہوتے ہیں‘ فلاں جگہ پلاٹ بہت سستے بک رہے تھے ہمارے باپ دادا نے نہیں خریدے ‘ مکان سستا تھا‘ وہ خرید لیتے تو آج کروڑوں کا تھا۔ ان معمولی چیزوں کیلئے انسان پچھتاتا ہے۔
اپنی نیکیوں کی بھی خبر لیں!
مگر اپنی جوانی کا پچھتاوا نہیں جو اب بڑھاپے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ جوانی میں نمازیں اور نوافل پڑھتا‘ خوب کماتا تھا‘ فی سبیل اللہ دیتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ اپنا وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں گزارتا‘ اصل پچھتاوا تو یہ ہے۔ اپنی نیکیوں کی خبر لیں کتنی نیکیاں چوری ہوگئیں‘ کتنی نیکیاں گل گئیں‘ کتنی نیکیاں جل گئیں‘ کتنی نیکیاں سڑگئیں‘ کتنی نیکیوں کو گھن کھا گیا‘ کتنی نیکیوں کو کیڑا کھاگیا‘ کتنی نیکیاں پھٹ گئیں کتنی نیکیاں قید ہیں۔ قارئین سوچ رہی ہوں گی نیکیوں کے بارے میں یہ سب کچھ کیسے لکھ دیا جو کچھ معاشرے میں دیکھتی ہوں وہی لکھا ہے۔ نیکیاں کیسے چور ہوتی ہیں؟ کسی دیوار سے لگ کر دوسروں کی باتیں چراکر ان کو دوسروں تک پہنچایا۔ آپ کی تمام نیکیاں چوری ہوگئیں۔ دوسروں کے راز پر چھپ کر ڈاکہ ڈالا چپکے سے سنا‘ آپ کا دشمن ڈاکو ابلیس آیا اور آپ کے رجسٹر سے تمام نیکیوں کو لوٹ لیا‘ آپ بے خبر ہیں‘ شیطان آپ کا اتنا بڑا فین ہوگیا۔
کاش ! کسی ضرورت مند کو دے دیتی!
بازار گئیں تو کئی جگہ سبزی کے ڈھیر لگے دیکھے‘ معلوم کیا تو خبر ہوئی کہ آج سبزی سستی ہے۔ اس لیے ڈھیروں سبزی خرید لی۔ دو تین سبزیاں پکائیں‘ باقی فریج میں پڑی پڑی گل گئیں۔ کسی ضرورت مند کو دے دیتیں تو نیکیاں نہ گلتیں‘ بہت سے پھل لے آئیں کچھ کھائے باقی رکھ دئیے‘ وہ سڑ گئے‘ صدقہ کردیتیں تو نیکیاں نہ سڑتیں۔ خالص دودھ دس کلو لے لیا‘ بروقت گرم نہ کیا دیر سے گرم کیا تو پھٹ گیا اگر پاؤ دودھ صدقہ کردیتیں تو نیکیاں نہ پھٹتیں۔ سالانہ گندم خرید لی وہ استعمال کے بعد بچ گئی‘ سنبھال کے رکھ لی‘ کچھ عرصہ بعد گندم کو دیکھا اسے گھن کھاگیا تھا‘ اگر کسی غریب کو دے دیتیں تو نیکیاں یوں بھسم نہ ہوتیں۔
اب جلی ہوئی نیکیاں بھی دیکھ لیں!
اب جلی ہوئی نیکیاں بھی دیکھ لیں۔ پڑوسن کےگھر مہمان آگیا‘ حسن اتفاق سے اس دن انہوں نے چٹنی پیس کر سب نے کھانا کھالیا۔ یہ اب ہمسائی کے گھر گئیں۔ ان سے سوال کیا کہ ہمارے گھر مہمان آگیا ہے۔ تھوڑا سا سالن دے دیں‘ بی ہمسائی تو مرغی پکارہی تھیں۔ مرغی کی بھنی ہوئی بوٹیاں دیکھیں تو اتنی اچھی بھنی مرغی پڑوسن کو دینے کی ہمت نہ ہوئی۔ دوسری طرف منہ کرکے کہنے لگیں: میرے میاں نے تو پکانے کیلئے ابھی سبزی ہی نہیں بھیجی‘ یہ جواب دے کر مطمئن ہوگئیں‘ پڑوسن مایوس لوٹ گئی پھر ہنڈیا میں ایک بار ڈوئی چلائی‘ پکنے میں ابھی کچھ دیر ہے۔ یہ سوچتے ہوئے بیڈروم میں گئیں ذرا کمر سیدھی کرلوں‘ تصور میں مرغی کے بھنے گوشت اور تنور کی خوشبودار روٹیوں کا مزہ لے رہی تھیں۔ دس منٹ بعد اٹھ جاؤں گی۔ اے سی میں لیٹ کر کس کو خبر رہتی ہے‘ جب نیند بھر گئی‘ آنکھ کھلی ننگے پاؤں کچن میں بھاگیں تو دل دھک سے رہ گیا کچن دھوئیں سے بھرا ہوا تھا۔ بھنی ہوئی مرغی دھوئیں سے بھرچکی تھی۔ مرغی کیا ہنڈیا بھی جل چکی تھی۔
میں تیرے دروازے پر کھانامانگنے گیا تھا
بعض کتب میں لکھا ہے کہ اللہ کریم فرمائیں گے میں تمہارے دروازے پر کھانا مانگنے گیا تھا تم نے مجھے نہیں دیا‘ حکم ہے رب کا وہ تو بے نیاز ہے۔ ڈھیروں کپڑے بنالیے‘ بکسوں میں تہہ لگا کر رکھ چھوڑے‘ کبھی دل میں خیال آیا اتنے ڈھیروں سوٹ ہیں‘ نکال کر کسی کو دے دوں‘ سوٹ الٹ پلٹ کر دیکھے‘ یہ تو بے حد قیمتی ہیں‘ پھر بکسوں میں قید کردیا‘ یہ ہیں قیدی نیکیاں۔ ہماری ایک ہمسائی وفات پاگئیں جب میں ان کے گھر گئیں تو دیکھا بکسوں پر بکسے پڑے ہیں اور اس کو بڑے بڑے تالے لگے ہیں ساری عمر جوڑتی رہیں جوڑتی رہیں مگر اچانک موت نے گھیرا سب کچھ وہیں رکھا رہ گیا اور خود خالی ہاتھ چلی گئی۔ آئیے! جوڑنا چھوڑیں اور اپنی زندگی میں اپنی قبر کیلئے تزئین و ارائش کیا کریں۔ یعنی خدا کی راہ میں حسب توفیق خوش دلی سے کچھ نہ کچھ ضرور دیا کریں۔ کیا معلوم کہاں آخری ہچکی آئے اور بات ختم۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں